ان خیالات کا اظہار "محمد جواد ظریف" نے دورہ فرانس کے موقع پر جمعہ کے روز الیزہ محل میں فرانسیسی صدر "ایمانوئیل میکرون" کیساتھ ملاقات کے بعد یورونیوزچینل کیساتھ انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ، ایران جوہری معاہدے کے اراکین میں سے ایک تھا جو اس معاہدے کے مذاکرات میں شریک تھا۔
ظریف نے مزید کہا کہ جوہری معاہدہ کوئی اختیاری معاہدہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسا بین الاقوامی معاہدہ تھا جس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے توثیق دی تھی۔
گزشتہ سال کے مئی مہینے میں امریکہ، غیر قانونی طور پر ایران جوہری معاہدے سے علیحدہ ہوگیا جس کی خاطر ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کا آغاز ہوا اور امریکہ کیجانب سے ایرانی تیل کے خریداروں کو دیے گئے چھوٹ کی منسوخی سے اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ جوہری معاہدہ ایک رات کے اندر طے نہیں پایا گیا بلکہ اس کے ہر لفظ پر طویل مذاکرات کیے گئے۔
ظریف نے مزید کہا کہ اگر یورپی یونین امریکہ کیساتھ یا کہ امریکہ کے بغیر جوہری معاہدے سے متعلق اپنے کیے گئے وعدوں پر من وعن عمل کرنے کا فیصلہ کرے تو اسلامی جمہوریہ ایران بھی صرف چند گھنٹوں کے اندر پچھلے کی صورتحال پر واپس آئے گا۔
یاد رہے کہ ایران جوہری معاہدے سے امریکی یکطرفہ علیحدگی اور ایران مخالف امریکی دباؤ میں اضافے کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران نے جوہری معاہدے کی سالگرہ کے موقع پر اس بین الاقوامی معاہدے سے متعلق اپنے کیے گئے وعدوں کے کچھ حصے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایرانی خارجہ دورہ فرانس سے پہلے کہا تھا کہ انہوں نے صدر ممکلت ڈاکٹر "حسن روحانی" کی ہدایت سے جوہری معاہدے سے متعلق فرانسیسی صدر کی تجویز کا جائزہ لینے کیلئے فرانس کا دورہ کریں گے۔
اس کے علاوہ فرانس کے صدر نے بھی اس سے پہلے خلیج فارس میں حالیہ کشیدگی میں کمی اور ایران مخالف امریکی پابندیوں میں کمی یا کہ پابندیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے کچھ تجاویز پیش کی تھیں۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ